اردو کے ایک قومی روزنامے کے ادارتی صفحے پر بحث چل نکلی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو کسی بزرگ صحافی نے کیا مشورہ دیا۔
اس ادرارتی صفحے کی اچھی بات یہ ہے کہ دوسرے صحافی کی درگت بنانے سے پہلے اسے اپنا بزرگ ماننے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ایٹم بم کا دھماکہ کرنے سے پہلے ہمارے ہم پیشہ بزرگوں سے بھی مشاورت کی گئی۔ یہ جان کر اور بھی خوشی ہوئی کہ ہمارے سب بزرگ صحافیوں نے تابڑتوڑ مشورے دیے۔ اور نظریہ پاکستان کے محافظ بزرگ صحافی نے تو یہ فرمایا کہ اگر آپ نے دھماکہ نہیں کیا تو ہم آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔
ایک اور بزرگ صحافی جنہوں نے دھماکہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا انہیں مل کر انکے باقی بزرگ صحافیوں نے اتنے تبرے بھیجے کہ ان کی عام طور پر مجاہدانہ نثر پر بھی کفر کا شبہ ہونے لگا۔ جملۂ معترضہ یہ تھا کہ کیا جوہری دھماکے کرنے کے بعد پاکستان کی سلامتی میں اضافہ ہوا ہے یا کمی۔
دلائل کی اس بارش میں ایک ایسے بزرگ صحافی کہ جنہیں بزرگ بھی اپنا بزرگ مانتے ہیں یہ کہتے پائے گئے کہ کیا زیور صرف اس لیے نہ بنوایا جائے کہ اسے ایک دن چور سے چوری کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
زیور سے ان کی مراد ایٹم بم تھے اور چور سے ظاہر ہے امریکہ جس کی بقول بزرگان کے اس بم کی وجہ سے نیندیں حرام ہیں۔
میں جب بھی ایٹم بم کے بارے میں اردو کی صحافتی اصطلاحات پڑھتا ہوں مجھے ساس بہو اور سازش ٹائپ ٹی وی ڈرامے یاد آنے لگتے ہیں۔ جیسے ایٹم بم نہ ہوئے کسی نوبیاہتا کا جہیز ہوگئے جس کی شادی کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ وہ سسرال سے اسے کتنا بچائے۔ جب بھی جوہری اثاثوں کا لفظ سنتا ہوں مجھے کسی بنیے کی تجوری یاد آجاتی ہے جو پورے گاؤں کی جائیدادیں گروی کر بیٹھا ہو۔ ایک نئے نئے بزرگ ہونے والے صحافی نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اللہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کو دشمن کی نظر بد سے بچائے۔
اس ایک جملے میں انہوں نے وطن عزیز کے تمام مسائل کو سمیٹ دیا ہے۔ ہمیں سکولوں میں پڑھایا گیا تھا کہ ایٹم بم بنانے کے لیے فزکس کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور نظر بد اور اس سے بچاؤ کی ترکیبیں ہندومت کے تواہمات ہیں اور کچھ نہیں۔
اب ہم اس نہج پر پہنچے ہیں کہ فزکس میں نوبل انعام پانے والے واحد پاکستانی کو کافر قرار دیتے ہیں پھر ایٹم بم کی حفاظت کے لیے اللہ کی غیبی مدد مانگتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ وہ یہ مدد ہندوؤں کے طریقے سے کرے